Header Ads

'آسٹریلیا پاکستان سے نہیں، محمد عباس سے شکست

'آسٹریلیا پاکستان سے نہیں، محمد عباس سے شکست

گزشتہ سال جب اسی موسم میں، ان ہی وکٹوں پہ سری لنکا پاکستان کے مدِمقابل تھا تو پاکستان تین پیسرز اور ایک سپنر کے ساتھ میدان میں اترا۔ ان وکٹوں پہ بھلا پیسرز کیا سر پھوڑتے، سارا بوجھ یاسر شاہ پہ آن پڑا اور پاکستان ابوظہبی ٹیسٹ ہار گیا۔
جب تمام حلقوں سے اس اٹیک فارمولے پہ کڑی تنقید ہونے لگی تو بولنگ کوچ اظہر محمود گویا ہوئے کہ تین پیسر، ایک سپنر پہ مشتمل بولنگ اٹیک ہی ہمیشہ پاکستان کی طاقت رہے ہیں۔
اسی اصرار کے ساتھ پاکستان اگلے میچ میں بھی اترا مگر ابوظہبی کی ہی طرح دوبئی میں بھی پاکستان کا یہ تین پیسرز والا فارمولا پٹ گیا اور دو میچز کی سیریز میں سری لنکا کلین سویپ کر گیا۔
ان دو ٹیسٹ میچز میں محمد عباس نے لگ بھگ پچھتر اوورز پھینکے تھے اور نو وکٹیں حاصل کی۔ ایک میڈیم پیسر کہ جس کا انٹرنیشنل کرکٹ کا کل تجربہ ہی کوئی تین چار میچز پہ محیط تھا، اس کے لئے یہ اعدادوشمار قابل فخر نہ سہی، قابل قدر تو تھے۔
اس اٹیک میں محمد عباس کے پیس پارٹنرز محمد عامر اور وہاب ریاض تھے جو تجربے میں عباس سے کئی گنا آگے تھے مگر ان کے درمیان عباس کا اس قدر کامیاب ثابت ہونا اس بات کی دلیل تھا کہ عباس کا انحصار تجربے کی بجائے صد فیصد مہارت اور درستی پہ تھا۔
مئی 2017 میں جب محمد عباس نے ڈیبیو کیا تھا، اس کے بعد سے اب تک یعنی پچھلے سولہ ماہ میں پاکستان نے صرف آٹھ ٹیسٹ میچز کھیلے۔ پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لئے یہ عمومی بات ہو گی۔ بلکہ جو پلئیرز تینوں یا کم از کم دو فارمیٹ کھیل رہے ہیں، ان کے لئے بھی یہ معمولی بات ہے۔
مگر ایسے پلئیرز جو کھیلتے ہی صرف ایک فارمیٹ ہیں، اگر انہیں ڈیڑھ سال میں صرف چالیس دن قومی سطح پہ نمائندگی کا موقع ملے تو یہ کم از کم ان کے ساتھ زیادتی ہے۔
کیونکہ انٹرنیشنل لیول کی کرکٹ نہایت بے رحم ہے۔ یہاں اگر ایک سیزن برا آ جائے تو کرئیرز پہ ہی سوالیہ نشان اٹھنے لگتے ہیں۔ محمد عامر کو ہی دیکھ لیجئے۔ بھلا مہینہ پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ کسی دن محمد عامر بھی ڈراپ ہو سکتے ہیں۔
سو، اس معیار کی کرکٹ میں پلئیر زیادہ دیر فیلڈ سے دور رہ نہیں پاتا۔ اور اگر بفرضِ محال اسے دور رہنا پڑ جائے تو پھر پلٹنے تک کتنے موسم گزر چکے ہوں گے اور فارم، فٹنس کس جگہ ہوں گے، کوئی نہیں جانتا۔
محمد عباس کو بھی یہی چیلنج درپیش تھا۔ سو ایسے میں ان کے پاس دو آپشنز تھے۔ اول یہ کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ہی مزید کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے جہاں وہ دو سیزن پہلے ہی اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔
دوسرا اور قدرے مشکل آپشن یہ تھا کہ وہ کاونٹی کرکٹ کا راستہ اپنائیں جہاں صرف کنڈیشنز ہی نہیں، کرکٹ کی کوالٹی بھی ڈومیسٹک سےبہت بہتر ہے۔ عباس نے یہی آپشن منتخب کیا۔
ان کے اس فیصلے کا صرف انہیں ہی نہیں، پاکستان کو بھی بہت فائدہ ہوا جہاں لارڈز میں ان کی آٹھ وکٹوں کی بدولت پاکستان کو یکسر غیر متوقع فتح حاصل ہوئی۔ صرف یہی نہیں، پچھلے ہی مہینے ایک بار پھر انہی کی بدولت پاکستان کا نام دنیائے کرکٹ میں گونجا جب انہوں نے ایک ہی دن میں دس وکٹیں لے کر ڈرہم کاونٹی کرکٹ کلب کو دو بار تاریخ کے کم ترین ٹیم ٹوٹل پہ آوٹ کیا۔
ٹِم پین کی ٹیم جب مہینہ بھر پہلے یو اے ای کی کنڈیشنز سے آشنا ہونے کے لئے یہاں آئی تو کوچ جسٹن لینگر کے خیال میں ان وکٹوں پہ یاسر شاہ کی سپن آسٹریلیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھی۔ اسی لئے بولنگ کوچ ڈیوڈ سیکر انڈیا سے دو فرسٹ کلاس سپنرز کو لے کر آئے کہ آسٹریلوی بلے بازوں کو سپن کھیلنے کی بھرپور پریکٹس مل سکے۔
http://topadbid.com/m/2116557/
اپنے تئیں آسٹریلیا نے تیاری میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی مگر یہ کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ محمد عباس بھی ایسا بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
جس طرح کی تیاری کے ساتھ آسٹریلینز اس سیریز میں اترے تھے، اگر ان کے سامنے محمد عباس ایسا خطرہ نہ ہوتا تو بعید نہیں تھا کہ وہ سیریز ہی ڈرا کر جاتے مگر عباس کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ کسی ایک آسٹریلین کے پاس بھی اس کا جواب نہیں تھا۔
جن وکٹوں پہ سیمرز سر پٹخ پٹخ کر تھک جاتے ہیں اور جن کنڈیشنز کو ڈینس للی ایسے مہان بھی بولنگ کا قبرستان قرار دیتے ہیں، ویسی کنڈیشنز میں کسی سیمر کا یوں دھاڑنا وہم و گماں اور خواب و خیال کے قرین محسوس ہوتا ہے۔
مگر عباس نے اس واہمے کو خواب و خیال نہ رہنے دیا اور فاسٹ بولنگ کا ایسا طوفان برپا کیا کہ ڈیل سٹین ایسے لیجنڈ بھی انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کوئی نیا نمبر ون ٹیسٹ بولر آ گیا ہے۔
یہاں آسٹریلیا نہ تو یو اے ای کی خشک کنڈیشنز کے سبب ہارا نہ ہی اسے سپن کے خلاف کوئی خطرہ محسوس ہوا۔ ٹِم پین کی ٹیم یہاں صرف محمد عباس کے قہر کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہی اور سیریز گنوا بیٹھی۔

No comments

Powered by Blogger.